لیتھیم

آنے والا وقت لیتھیم اور سوڈیم جیسے عناصر کا ہے، خاص طور پر توانائی کے ذخیرے اور بیٹری ٹیکنالوجی کے میدان میں ان دونوں دھاتوں میں بہت زیادہ صلاحیت ہے کہ یہ مستقبل کے توانائی کے چیلنجز کا حل فراہم کریں۔

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

لیتھیم آئن بیٹریاں اس وقت سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ریچارج ایبل بیٹریاں ہیں، الیکٹرک گاڑیاں، موبائل فونز، لیپ ٹاپس، سولر سسٹمز، سب میں۔
یہ ہلکی۔طاقتور اور دیر پا بیٹریز فراہم کرتی ہیں۔
لیکن لیتھیم محدود مقدار میں دستیاب ہے
یہ خاص علاقوں جیسے جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، چین وغیرہ میں ہی زیادہ پایا جاتا ہے
اس کے ساتھ ماحولیاتی خطرات اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔

سوڈیم، ابھرتا ہوا متبادل
سوڈیم زمین میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے نمک میں بھی ہوتا ہے اور سستا ہے۔
سوڈیم آئن بیٹریاں اب تحقیق اور تجارتی سطح پر تیزی سے ترقی کر رہی ہیں۔
فوائد: کم قیمت، آسانی سے دستیاب، ٹھنڈے ماحول میں بہتر کام کرتی ہیں۔
گو کہ توانائی کی کثافت Energy Density ابھی لیتھیم جتنی نہیں لیکن مستقبل میں اس مسلے کا بھی حل نکل آئے گا۔

لیتھیم

پاکستان کے لیے ایک بڑا موقع۔
نظریاتی طور پر پاکستان میں موجود پہاڑی نمک سے حاصل شدہ سوڈیم کو سوڈیم آئن بیٹریوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اس کے لیے کچھ سائنسی، صنعتی اور تکنیکی مراحل ضروری ہیں جنہیں سمجھنا بہت اہم ہے۔
پہاڑی نمک سے سوڈیم کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟
پاکستان میں کھیوڑہ جیسے علاقوں میں پہاڑی نمک کی بہت بڑی مقدار موجود ہے، جس کا کیمیائی فارمولا عام طور پر NaCl سوڈیم کلورائیڈ ہوتا ہے۔

  1. سوڈیم کلورائیڈ NaCl سے سوڈیم دھات Naحاصل کرنے کے لیے الیکٹرولائسز کا عمل استعمال کیا جاتا ہے۔
  2. یہ صنعتی سطح پر کیا جاتا ہے اور کافی توانائی خرچ ہوتی ہے۔
  3. حاصل شدہ سوڈیم کو بیٹری کے لیے بطور کیتهوڈ یا اینوڈ مٹیریل استعمال کیا جاتا ہے یہ مخصوص فارمولیشنز پر منحصر ہے۔
    پاکستان کی صلاحیت اور چیلنجز مواقع
    پاکستان کے پاس دنیا کے بڑے نمک ذخائر ہیں
    خام مال کی مقامی دستیابی سے لاگت کم ہو سکتی ہے
    سوڈیم آئن بیٹریز کی بڑھتی ہوئی عالمی طلب خاص کر چین، بھارت، افریقہ جیسے ممالک میں
    درآمدی بیٹری پر انحصار کم کرنے کا موقع
    چیلنجز:
    پاکستان میں بیٹری مینوفیکچرنگ انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے
    الیکٹرولائسز پلانٹس اور ریفائننگ ٹیکنالوجی موجود نہیں
    تحقیق و ترقی R&D کی کمی
    ماہرین، انجینئرز، اور صنعتی سرمایہ کاری درکار ہے

پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟

  1. جامعات اور ریسرچ ادارے (مثلاً NUST, PIEAS, PCSIR کو سوڈیم آئن بیٹری پر تحقیق کرنی چاہیے
  2. حکومت کو Public-Private Partnerships کے تحت پائلٹ پروجیکٹس شروع کرنے چاہئیں
  3. پاکستان کو غیر ملکی کمپنیوں سے ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی بات چیت کی جا سکتی ہے
  4. کھیوڑہ اور دیگر نمک علاقوں میں ویلیو ایڈیشن پلانٹس لگانے کی حکمتِ عملی بنائی جا سکتی ہے
    پاکستان کا دوست ملک چین سوڈیم آئن بیٹری ٹیکنالوجی میں دنیا میں سب سے آگے ہے
    چینی کمپنی کیٹل نے 2023 میں اپنی پہلی تجارتی Sodium-ion battery متعارف کرائی
    اس سوڈیم آئن ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی ایک اور چینی کمپنی حنا بھی ہے۔
    لیتھیم کا دور ابھی مکمل ختم نہیں ہو رہا، خاص طور پر جہاں زیادہ توانائی کثافت درکار ہو۔
    لیکن سوڈیم مستقبل میں سستا، محفوظ، اور وسیع پیمانے پر قابلِ استعمال متبادل بن سکتا ہے، خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں بجلی ذخیرہ کرنی ہو جیسے سولر گرڈز یا سستی الیکٹرک گاڑیاں۔
    لہٰذا آنے والا وقت لیتھیم اور سوڈیم دونوں کا ہے۔
    مگر سوڈیم کا کردار ابھرتا ہوا ہے جو کئی توانائی چیلنجز میں انقلابی کردار ادا کر سکتا ہے۔